زیکا وائرس کی صورت میں دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہندوستان کو بھی انسانی صحت اور زندگی سے متعلق ایک اور بڑے خطرے کا سامنا ہے۔ اس وقت زیکا وائرس سے سب سے زیادہ متأثرہ ملک برازیل، اس کے بعد کولمبیا و دیگر ممالک بتائے جارہے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ وائرس دنیا کے دیگر براعظموں میں بسنے والوں کو بھی متأثر کرسکتا ہے۔
طبی سائنس کے مطابق زیادہ تر گرم مرطوب علاقوں میں پایا جانے والا Aedes نامی مچھر اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ ہے۔ یہ مچھر صاف پانی میں پرورش پاتا ہے۔ زیکا وائرس پھیلانے والے اس مچھر کے جسم پر سیاہ اور سفید نشانات ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیکا وائرس انسانی جسم میں ایک ہفتے تک زندہ رہنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ یہ مچھر زیادہ تر دن کی روشنی میں متحرک رہتا ہے اور اس دوران کسی بھی انسان کو کاٹنے پر زیکا وائرس اس کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے۔
طبی محققین کا کہنا ہے کہ اس
وائرس سے چالیس برس قبل افریقی ملک یوگنڈا میں لوگوں کی بڑی تعداد متأثر ہوئی تھی۔ طبی ریسرچ کے مطابق اگر یہ مچھر حاملہ عورت کو کاٹ لے تو اس کے پیٹ میں موجود بچہ مائیکرو سیپلے نامی ایک بیماری کا شکار ہوسکتا ہے جس سے بچے کے دماغ کی نشوونما رک جاتی ہے اور وہ ذہنی اور جسمانی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ زیکا وائرس سے انسان کو محفوظ رکھنے اور اس کے خاتمے کے لیے طبی محققین اب تک کوئی ویکسین یا دوسرا طریقۂ علاج دریافت نہیں کرسکے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق زیکا وائرس سے متاثرہ فرد بخار کے ساتھ اعصاب اور جوڑوں کے درد، آنکھوں میں جلن کی شکایت کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ سَر درد اور بعض صورتوں میں جلد پھٹنے لگتی ہے یا اس پر سرخ نشانات نمودار ہونے لگتے ہیں۔ اکثر نزلہ زکام کے بعد بھی اس خطرناک وائرس کی تشخیص ہوئی ہے اور ایسے مریضوں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ زیکا وائرس کا نشانہ بن چکے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق مچھروں کی مختلف اقسام دنیا میں انتہائی خطرناک اور مہلک بیماریاں پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، جن سے بچاؤ اور ان کا مکمل علاج فی الوقت موجود نہیں ہے۔